سبق کا نام: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
مصنف کا تعارف
پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ پریم چندہ ۱۸۸ء میں ضلع بنارس کے ایک گاؤں ملہی میں پیدا ہوئے۔ پریم چند کے والد کا نام منشی عجائب لال
تھا۔ وہ ڈاک خانے میں معمولی ملازم تھے ۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک سکول میں مدرس ہو گئے ۔ ۱۹۰۰ ء میں گورنمنٹ مڈل سکول سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ چناں چہ ۱۹۱۹ءمیں الہ آباد یونی ورسٹی سے بی ۔ اے کر لیا۔ ۱۹۲۱ ء میں ملازمت سے استعفاد دے دیا اور مکمل طور پر علمی وادبی کاموں میں مشغول ہو گئے ۔ ۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس کی صدارت کی اور اسی سال بنارس میں وفات پائی۔ پریم چند نے اپنی تحریروں میں ہندوستان کے دیہات میں بسنے والے مزدوروں اور کسانوں کی زندگی اور ان کے مسائل کامیابی کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اُن کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود بدی کے مقابلے میں غالب رہتی ہے۔ ان کی زبان سادہ ہے۔ انھوں نے مقامی واقعات اور حقائق کو موضوع بنا کر تحریروں میں مقامی رنگ بھی پیدا کیا ہے۔ ان کی تحریروں کی بنیاد معاشرتی مسائل ، نفسیاتی مطالعہ اور مشاہدہ پر ہے۔ ان کے کردار زیادہ تر مثالی ہیں ، جن میں تنوع پایا جاتا ہے۔ انھوں نے تقریبا ہر عمر اور پیشے سے متعلق کردار پیش کیے ہیں۔ پریم چند کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ پریم چند ۸ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو بنارس میں فوت ہوئے۔
تصانیف
افسانوی مجموعے: ۔ سونے وطن، خواب و خیال، پریم پچیسی، پریم بتیسی، پریم چالیسی ، واردات ، زاد راہ اور آخری تحفہ (ناول: بازار حسن تر ملا، گشودان ، میدان عمل ، بیوه وغیره
خلاصہ
شیخ جمن اور الگو چودھری دونوں بڑے گہرے دوست تھے ۔ دونوں اکٹھے مل کر مشترکہ کہ کھیتی باڑی کرتے تھے ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کرتے تھے ۔ شیخ جمن کی ایک بوڑھی بیوہ خالہ تھیں۔ ان کی ملکیت میں کچھ زمین تھی۔ بدقسمتی سے ان کی اولا دیتی تھی اور نہ ہی کوئی وارث تھا ، اس لیے وہ جمن کے پاس رہتی تھیں ۔ جمن نے دھوکہ دے کر ان کی جائیداد اپنے نام کرا لی ہبہ نامہ پر رجسٹری ہوتے ہی شیخ جمن نے خالہ کی خاطر داری میں کمی کر دی۔ اس کی بیوی فہمین نے بھی خالہ پر زیادتیاں شروع کردیں اور رفتہ رفتہ اس کے سالن کی مقدار اور روٹیوں میں کمی کردی ۔
آخرخالہ نے دلبرداشتہ ہو کر جمن سے اس کی شکایت کی ۔ جمن نے اس کی طرف دھیان نہ دیا تو خالہ نے مطالبہ کیا تم مجھے روپے دے دو میں اپنا الگ پکا لیا کروں گی ۔ جمن نے روکھائی سے جواب پاس اتنے روپے نہیں ہیں ۔ یہ سن کر خالہ نے اسے پنچائیت کی دھمکی دے دی۔ بوڑھی خالہ نے گھرگھر جا کر لوگوں سے فریاد کی ، جب کہ شیخ جمن کا پورے علاقے میں اثر و رسوخ تھا اس لیے وہ کسی کے سامنے فریاد کرنے کے لیے نہیں گیا۔ چناں چہ شام کے وقت ایک پیڑ کے نیچے سب لوگ جمع ہو گئے تو بوڑھی خالہ نے سب کو مخاطب کر کے اپنی کہانی سنائی اور ثالثی کے لیے الگو چودھری کا انتخاب کیا جمن نے الگو چودھری کو بطور ثالث تسلیم کرلیا۔ جمن کو یقین تھا کہ الگو اس کا گہرا دوست ہے وہ کبھی بھی اس کے خلاف فیصلہ نہیں دے گا۔
الگو چودھری قانونی آدمی تھا۔ اُس نے دونوں کے بیانات سنے اور فیصلہ بوڑھی خالہ کے حق میں دیا ۔ الگو کا فیصلہ سن کر شیخ جمن پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ کیوں کہ فیصلہ اس کی توقع کے خلاف ہوا تھا۔ اسے اپنے دوست سے یہ امید نہ تھی ۔ اس فیصلے نے ان دونوں کی دوست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ دونوں ایک دوسرے کے سخت مخالف بن گئے ۔ جمن کے دل میں حسد کی آگ بھڑک رہی تھی ۔ وہ موقع کی تلاش میں تھا کہ کب اُسے بدلہ لینے کا موقع میسر آتا ہے۔ خوش قسمتی سے اُسے موقع بھی جلد ہی مل گیا۔ ایک سال قبل الگو میلے سے خوب صورت بیلوں کی جوڑی لایا تھا۔ پنچایت کے ایک ماہ بعد ہی ایک بیل مر گیا ۔ جب کہ دوسرا بیل سمجھو سیٹھ ایک ماہ کے ادھار پر خرید کر لے گیا۔ وہ بیل گاڑی چلاتا تھا۔ وہ گاؤں سے گڑ گھی منڈی میں لے جاتا اور وہاں سے تیل اور نمک وغیرہ لا کر لاتا اور گاؤں میں بچا کرتا تھا۔ وہ دن میں تین چار بارگاؤں سے منڈی اور منڈی سے گاؤں چکر لگاتا۔ ایک دن واپسی پر اُس نے بیل پر دگنا وزن لادا تو وہ زمین پر گر پڑا اور دوبارہ اس میں اُٹھنے کی ہمت نہ ہوئی اور چل بسا ۔ سامان اور روپے سمجھو کے پاس تھے، اس لیے اس نے وہیں رات بسر کی۔ جب صبح بیدار ہوا تو روپے اور کچھ سامان غائب تھا۔ پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا۔ دونوں میاں بیوی نے خوب ہنگامہ کیا ۔ جب الگو نے رقم کا مطالبہ کیا تو دونوں میاں بیوی سخت غصے میں آ گئے اور خوب بحث و تکرار ہوئی اور فیصلہ پنچایت میں لے گئے ۔ سمجھو سیٹھ نے شیخ جمن کو ثالث مقرر کیا۔ الگو جمن کا نام کر پریشان ہو گیا ۔ مگر جمن نے فیصلہ الگو کے حق میں دیا ۔ ۔ شیخ جمن الگو کے پاس آئے اور گلے لپٹ کر کہنے لگے کہ پہلے میں تمھارا دشمن بن گیا تھا مگر آج مجھے سبق مل گیا ہے کہ انصاف کی کرسی پر کر کوئی کسی کا دست اور دشمن نہیں ہوتا۔ جمن کی بات سن کر الگو کادل بھر آیا اور رونے لگا ۔ دونوں کے دل صاف ہو گئے اور وہ پہلے کی طرح دوست بن گئے۔