سبق کا نام: ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
مصنف کا نام :علامہ شبلی نعمانی
:مصنف کا تعارف

شبلی نعمانی 1857 میں اعظم گڑھ کے گاؤں بندول میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ حبیب اللہ اعظم گڑھ میں وکیل تھے شبلی نے بھی کچھ دن وکالت کی پھر علی گڑھ کالج میں فارسی کے استاد مقرر
ہو گئے وہاں انہیں سر سید حالی محسن الملک اور ارنلڈ کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع ملا 1996 میں ارنلڈ کے ساتھ شبلی نے مصر شام قسطنطنیہ اور دوسرے اسلامی ممالک کا سفر کیا سر سید احمد خان کی وفات 1898 کے بعد علی گڑھ کالج سے استعفی دے کر اعظم گڑھ چلے گئے پھر حیدراباد دکن کے دائرۃ المعارف کی نظامت کا عہدہ سنبھالا اس دوران میں ان کی کوشش سے لکھنو میں ندت العلماء کا قیام عمل میں ایا اخیر عمر میں اعظم گڑھ میں انہوں نے ایک عظیم ادارہ ادارہ دارالمصنفین قائم کیا جو اج بھی کام کر رہا ہے شبلی شاعر بھی تھے لیکن ان کی شہرت کا مدار زیادہ تر ان کی نثر پر ہے ان کا شمار اردو کے بڑے نثر نگاروں میں ہوتا ہے شبلی نے اگرچہ مطلوبہ موضوعات مثلا تاریخ ،تنقید، سوانح، سیرت ،تذکرہ ادب، معاشرت ،عقائد، تصوف اور سیاست پر قلم اٹھایا مگر ان کے طرز اظہار میں ادیبیت کی شان موجود ہے جوشِ بیان اجاز و اختصار روانی و برجستگی محققانہ انداز غنائیت اور شریعت ان کے اسلوبے بیان کی نمایاں خصوصیات ہیں شبلی کی تمام ادبی کاوشوں سے قطع نظر ان کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ ان کا انداز بیان ہے 18 نومبر 1914 کو 57 برس کی عمر میں وفات پائی
سبق کا عنوان: ہجرت نبوی مصنف کا نام: مولاناشبلی نعمانی
خلاصه
جب حضور اکرم خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ نے اہل قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا مگر حضور اکرم خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے اللہ تعالٰی تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے۔ نبوت کا تیرھواں سال شروع ہوا تو وحی الٰہی کے مطابق حضور ا کرم خاتم النبیین محمد رسول اللہ نے بھی مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا۔ مشرکین مکہ کو جب یہ خبر ملی کہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے تو انھوں نے مختلف تجاویز پیش کیں ۔ ایک نے رائے دی کہ (نعوذ باللہ) آپ ﷺ کے ہاتھ پاؤں میں زنجیر ڈال کر قید کر دیا جائے ، دوسرے نے رائے دی کہ آپ ﷺ کو جلا وطن کر دیا جائے ۔ ابو جہل نے تجویز دی کہ تمام قبائل میں سے ایک ایک شخص منتخب کیا جائے اور ( نعوذ باللہ ) سب مل کر آپ ﷺ کا خاتمہ کر دیں ۔ اس رائے پر سب متفق ہوئے اور شام ہوتے ہی آپ ﷺ کے آستانہ مبارک کا محاصرہ کر لیا۔ اگر چہ قریش کو حضور اکرم خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شدید دشمنی تھی ، اس کے باوجود آپﷺ کی امانت و دیانت پر بھر پور اعتماد تھا اور وہ اپنی امانتیں آپ ﷺ کے پاس رکھتے تھے۔ اس وقت بھی آپ ﷺ کے پاس کئی لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی تھیں ۔ چناں چہ آپ ﷺ نے حضرت علی علیہ السّلام کو فر مایا کہ میں اللہ تعالی کے حکم کے مطابق مدینہ روانہ ہورہا ہوں ، آپ میرے بستر پر چادر اوڑھ کر سو جائیں ۔ صبح سب امانتیں اصل مالکوں کو واپس کر کے مدینے چلے آئیں ۔ قریش نے آپ ﷺ کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔ جب رات زیادہ گزرگی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں بےخبر کر دیا۔ آپ ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے اور خانہ کعبہ کو دیکھا تو فرمایا کہ تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے ۔” چناں چہ آپﷺ اطمینان سے گزر گئے ۔ حضرت ابو بکر صدیق سے ہجرت کے بارے میں پہلے ہی مشورہ ہو چکا تھا۔ اس لیے انھیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے اور غار ثور میں چھپ گئے ۔ حضرت ابو بکر صدیق کے بیٹے عبداللہ رات کو غار میں ساتھ ہوتے اور صبح کو منہ اندھیرے مکہ چلے جاتے اور شام کو آکر قریش کے ارادوں سے آگاہ کرتے۔ حضرت ابوبکر کا غلام بکریاں چراتا اور شام کو خدمت اقدس میں دودھ پیش کرتا ۔ آپ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق دودھ پی لیتے ، اسی طرح تین راتیں غار میں گزریں۔
صبح قریش بیدار ہوئے تو انھوں نے بستر پر حضرت علی کو لیٹے ہوئے پایا۔ انھوں نے حضرت علی کو حرم میں محبوس کر دیا اور پھر انھیں رہا کر کے حضور اکرم خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلے ۔ تلاش کرتے کرتے وہ غار کے کنارے تک پہنچ گئے ۔ ان کے پاؤں کی آواز سن کر حضرت ابو بکر صدیق غم زدہ ہو گئے تو آپ ﷺ نے انھیں تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں ، بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ قریش نے اعلان کیا تھا کہ جو آپ ﷺ یا حضرت ابو بکر کو گرفتار کر کے لائے گا، اسے سو اونٹ بطور انعام دیے جائیں گے۔ سراقہ بن چعشم نے انعام کے لالچ میں آکر آپ ﷺ کا تعاقب کیا۔ مگر جب وہ آپ ﷺ کی طرف نا پاک ارادے سے آگے بڑھا تو اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں گھٹنوں تک دھنس گئے۔ اس کی ہمت پست ہوئی تو آپﷺ سے امن کی تحریر لکھنے کی درخواست کی۔ حضور اکرم خاتم النبیین محمد رسول الله ﷺ کی تشریف آوری کی خبر مدینے پہنچ چکی تھی ایک دن ایک یہودی نے قلعے سے دیکھا اور اندازے سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پہچان کر پکارا اے اہل عرب تم جس کا انتظار کر رہے تھے وہ آگئے اس پر سارا شہر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا