9th Class Urdu Summary chapter 11

9th-Class-Urdu-Summary-chapter-11-Featured-image.webp
9th-Class-Urdu-Summary-chapter-11-blog-post-image.webp

سبق کا نام: قدر ایاز

مصنف کا نام: کرنل محمد خان

مصنف کا تعارف

کرنل محمدخان ۱۹۱۰ء میں چکوال میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں میں حاصل کی ۔ یہاں امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔ ۱۹۴۰ء میں بطور سیکنڈ لیفٹینٹ کمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ پاکستان بننے کے بعد دفاع پاکستان میں حصہ لیا ۔ ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ میں رن کچھ کے مقام پر نمایاں کارنامے  انجام دیے۔ کرنل کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر منٹ حاصل کرلی اور مستقل طور پر راول پنڈی میں قیام پذیر ہوگئے تو ۱۹۹۹ء میں وفات پائی۔ کرنل محمد خان اُردو کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔ ان کی تحریر سادہ اور دل چسپ ہوتی ہے ، وہ گزرے ہوئے واقعات کے خوب صورت انداز میں بیان کرتے ہیں، جن میں چھپی ہوئی ظرافت دل کو بے حد متاثر کرتی ہے ۔ مزاح کے ساتھ ساتھ وہ اریانا کمزوریوں جھوٹ تصنع اور بناوٹ کے رویوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ان کے ہاں مزاح نگاری کا ایک معیاری اور سلجھا ہو انداز دکھائی دیتا ہے۔ ان کی تحریروں کی امتیازی خوبی معنی آفرینی اور پروقار طنز و مزاح ہے۔

تصانیف

 ان کی تصانیف میں بجنگ آمد بسلامت روی اور بزم آرائیاں شامل ہیں

خلاصہ 

کرنیلوں کو رہائش کے لیے عمدہ سی کلاس بنگلے ملتے ہیں خوش قسمتی سے مجھے بھی رہائش کے لیے ایک ایسا بنگلہ مل گیا جو باقی بنگلوں میں امتیازی حیثیت رکھتا تھا یہ بنگلہ ولسن صاحب نے خاص طور پر اپنے لیے بنوایا تھا یہ بنگلہ تقریبا دو ایکڑ ارازی پر واقع تھا بنگلے کے وسیع صحن میں اونچے سرو سفیدے کے پیڑ لہلہا تے تھے اس شاہانہ طرز کے بنگلے کی ارائش و زیبائش کے لیے مقامی کباڑیے کی مدد لی گئی ۔ سلیم ابھی ابھی میٹرک کا امتحان دے کر فارغ ہوا تھا اور دوسرے کرنل زادوں کی طرح ان کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلتا اور شام ہوتے ہی ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جاتا بوڑھے علی بخش کے علاوہ کسی اور شخص کو اس کے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی ایک دن سلیم کا دوست امجد اس کی عدم موجودگی میں اس سے ملنے کے لیے اس کے گھر ایا اور باہر برآمدے میں کرسی پر بیٹھ گیا علی بخش نے اسے ٹھنڈا پانی پلایا وہ کافی دیر تک سلیم کا انتظار کرتا رہا لیکن اخر کار مایوس ہو کر چلا گیا بعد میں سلیم کو علم ہوا تو وہ علی بخش پر برس پڑا کہ اس نے امجد صاحب کو ٹھیک طرح سے خاطرداری نہیں کی امجد اسے دیہاتی سمجھے گا علی بخش کو سلیم کی ڈانٹ کا بڑا دکھ ہوا علی بخش کی داستان ختم ہوئی تو اسی وقت سلیم میاں آگئے اور اپنی شکایت بیان کی دونوں کے درمیان جھگڑا معمول قسم کا تھا جو جو چائے کی ایک پیالی پر ختم ہو سکتا تھا گویا دونوں کے نزدیک دیہاتی ہونے کا تانا ناقابل برداشت تھا چنانچہ مصنف دونوں کو ایک دیہاتی کا واقعہ سنانے لگا واقعہ کچھ یوں تھا ایک دیہاتی لڑکا اپنے گاؤں میں پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہر کے ہائی سکول میں داخل ہو گیا اپنے گاؤں میں تو وہ چھوٹا موٹا چوہدری تھا پہلے دن جب کلاس میں گیا تو ننگے سر پر صافہ بدن پر کرتا تہ بند اور بٹوہاری جوتا پہنے ہوئے تھا ماسٹر صاحب نے شلوار پہننے کو کہا تو اہستہ اواز میں بولا شلوار تو لڑکیاں پہنتی ہیں ماسٹر صاحب انہیں چھوٹا چوہدری کہتے تھے سلیم نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ وہ پتلون کیوں نہیں پہنتا تھا مصنف نے اسے بتایا کہ ان دنوں بہت کم لوگ پتلون پہنا کرتے تھے سارے سکول میں صرف ایک سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحب انگریزی سوٹ پہنتے تھے سکول کے لڑکے انہیں جنٹل مین کہتے تھے ایک دفعہ وہ شکار کھیلتے ہوئے چھوٹے چوہری کے گاؤں میں پہنچ گئے دسمبر کا مہینہ تھا اور سردی بھی خوب تھی رات ہو رہی تھی اس لیے ماسٹر صاحب نے چھوٹے چودری کے گھر رہنے کا فیصلہ کیا لڑکا خلاف توقع ماسٹر صاحب کو دیکھ کر گھبرا گیا پریشان تھا کہ کہیں ماسٹر صاحب کی تواضے میں کمی نہ رہ جائے وہ انہیں چوپال میں لے گیا اور ایک رنگین چارپائی پر بٹھا دیا اور ان کے لیے مکئی کے بٹے منگوا کر پیش کیے جو چوپال میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں نے باری باری ماسٹر جی کی خیریت دریافت کی ماسٹر چائے کے شوقین تھے اس لیے حکیم صاحب کے گھر سے چائے کی پتی منگوائی گئی چائے بد مزہ تیار ہوئی تھی ماسٹر صاحب نے گھونٹ پی کر رکھ دی رات کو ماسٹر جی کو مرغ کا سالن پیش کیا گیا اور سونے کے لیے اکلوتی ریشمی رضائی پیش کی گئی صبح ماسٹر صاحب کو کھیتوں کی سیر کرائی گئی اور مسجد کے غسل خانے میں غسل کیا ناشتہ کرنے کے بعد ماسٹر صاحب رخصت ہو گئے سلیم کہنے لگا پھر تو وہ دیہاتی شرمندگی کی وجہ سے سکول نہ جا سکا ہوگا میں نے اسے بتایا کہ وہ بدستور پڑتا رہا اور تعلیم مکمل کر نے کے بعد فوج میں بھرتی ہو گیا سلیم نے چھوٹے چوہدری سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے بازو پھیلا دیے سلیم سمجھ گیا کہ چھوٹا چوہدری کون ہے سلیم اور علی کی انکھوں میں انسو تھے اور دونوں کی انکھوں میں ایک دیہاتی کے لیے محبت کی چمک تھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *