9th Class Urdu Summary chapter 2

9th Class Urdu Summary chapter 2

9th-Class-Urdu-Summary-chapter 2

9th Class Urdu Summary chapter 2 also the introduction of the poet.

سبق کا نام :مرزا غالب کے عادات و خصائل

مصنف کا نام: مولانا الطاف حسین حالی

مصنف کا تعارف

الطاف حسین حالی ۱۸۳۷ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام خواجہ ایز دبخش تھا ۔ 9 برس کی عمر میں تھے کہ والد انتقال کر گئے ۔ والدہ دماغی توازن کھو بیٹھیں ۔ بڑے بھائی خواجہ امداد حسین انسپکٹر تھے ۔ دو بہنیں تھیں انھوں نے حالی کی پرورش کی ۔ ابتدائی تعلیم میں قرآن پاک ، فارسی اور عربی کی کتب پڑھیں ۔ ۷ ۱ برس کی عمر میں ، سیدہ اسلام النساء سے شادی ہوئی ۔ اخراجات کا بوجھ پڑا تو حالی دلی چلے گئے اور ایک مدرسے میں پڑھنا شروع کر دیا۔ چند کتابیں پڑھی تھیں کہ گھر والے آکرلے گئے۔ ۱۸۵۶ء میں ضلع حصار میں کلکٹر کے دفتر میں معمولی نوکری ملی ۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں یہ نوکری چھوڑ کر پانی پت آگئے ۔ اس دوران میں منطق ، فلسفہ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں پڑھیں ۔ روزگار کی فکر میں پھر دلی گئے ، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے بچوں کے استاد مقرر ہوئے۔ شیفتہ کی وفات کے بعد لاہور آ گئے ۔ اس دوران محمد حسین آزاد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے مل کر انجمن پنجاب کے مشاعروں کی بنیاد رکھی ۔ حالی نے چار مثنویاں برکھارت، نشاط امید” ” ” “مناظر و رحم و انصاف اور حب وطن لکھیں ۔ لاہور سے پھر دلی گئے اور وہاں اینگلو عربک سکول میں معلم بن گئے اور وہاں سرسید سے ملاقات ہوئی ۔ سرسید کے کہنے پر مسدس مد و جزر اسلام لکھی۔ ۱۸۸۸ء میں حیدر آباد دکن کی ریاست کی طرف سے وظیفہ مقرر ہوا، بعد میں ملازمت چھوڑ کر وظیفے پر گزارا کیا۔ حالی کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری ہے۔ حالی کی غرض ، اپنے مضمون کو ادا کرنے اور مطالب کو وضاحت سے پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتی ۔ ان کی نثری تحریروں میں اعتدال و توازن کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ بے جا اختصار اور بے جا طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے ، عبارت کو دل کش ، سادہ اور مدلل بنانے میں ، حالی اپنی مثال آپ ہیں ۔ وہ ہر بات سنجیدگی اور عقلیت کے ترازو میں تولتے ہیں اور تخیل اور جذبات سے دور رہتے ہوئے اپنے خیالات اور حقائق کو قاری تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رشید احمد صدیقی نے ، حالی کے نثری اسلوب کو ، اُردو نثر کا معیاری اسلوب قرار دیا ہے ۔ وہ سوانح نگار مضمون نگار اور نقاد ہیں ۔ سرسید کے قریبی اور با اعتماد ساتھیوں میں تھے۔ وفات سے چند دن پہلے فالج کا حملہ ہوا۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۱۴ ء کو انتقال ہوا اور پانی پت میں بو علی قلندر کی درگاہ میں دفن ہوئے

9th Class Urdu Summary chapter 2

خلاصہ

 مرزا غالب نہایت وسیع اخلاق کے مالک تھے

 وہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے ملے تھے۔ جس شخص کی ایک بار ان سے ملاقات ہو جاتی ، اُسے ہمیشہ ملنے کا اشتیاق رہتا تھا۔ دوستوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے اور ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے تھے ۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ انھوں نے جو خطوط دوستوں کو لکھے ہیں ، ان کے ایک ایک حرف سے مہر و محبت غم خواری و یگا نگت ٹپکتی ہے ۔ اکثر لوگ انھیں بیرنگ خط بھجواتے مگر وہ کبھی بھی برا نا مانتے تھے۔ مروت اور لحاظ مرزا غالب کی طبیعت میں بہت زیادہ تھا۔ عمر کے آخری حصے میں بھی کسی کی غزل یا قصیدہ بغیر اصلاح کے واپس نہ کرتے تھے ۔ اگر چہ مرزا کی آمدنی قلیل تھی مگر کھلے دل کے مالک تھے ۔ سائل بہت کم ان کے دروازے سے خالی ہاتھ جاتا  تھا۔ وہ غریبوں اور محتاجوں کی مدد اپنی حیثیت سے بڑھ کر کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ہمیشہ تنگ دست رہتے تھے۔

وہ اپنے تمام دوستوں سے نہایت شریفانہ طور سے سلوک کرتے تھے ۔ جہاں تک ممکن ہوتا ، ان کی مدد بھی کرتے تھے۔ ایک دفعہ مرزا نے اپنے ایک دلی دوست کو انتہائی کم قیمت کا لباس پہنے ہوئے دیکھا تو ان کا دل بھر آیا۔ انھوں نے بڑی خوب صورتی کے ساتھ اپنا نیا چغہ اپنے دوست کو پہنا دیا اور ان کا لباس اپنے پاس رکھ لیا۔ مرزا کے مزاج میں ظرافت بہت زیادہ تھی ۔ انھیں حیوان ناطق یعنی بولنے والا جانور کی بجائے حیوان ظریف یعنی ہنسنے والا جانور کہا جائے تو بجا ہے۔ ایک دفعہ رمضان المبارک میں بادشاہ سے ملنے گئے تو بادشاہ نے پوچھا مرز اتم نے کتنے روزے رکھے ہیں؟ کہنے لگے پیرو مرشد ایک نہیں رکھا ۔ ایک محفل میں مرزا میر تقی میر کی تعریف کر رہے تھے ۔ شیخ ابراہیم ذوق بھی موجود تھے ۔ انھوں نے سودا کو میر پر ترجیح دی جب کہ مرزا غالب میر تقی میر کے معترف تھے، جب ابراہیم ذوق نے سودا کو میر پر ترجیح دی تو مرزا نے کہا میں تو تم کو میری سمجھتا تھا مگر اب معلوم ہوا کہ آپ سودائی ہیں ۔ مرزا کی آمدنی محدود تھی مگر خود داری اور وضع داری کا بہت خیال رکھتے تھے۔ شہر کے امراء اور عمائد سے برابر کی ملاقات تھی۔ مرزا کو پھلوں میں آم بہت پسند تھا۔ آموں کے موسم میں ان کے دوست احباب دور دراز سے ان کے لیے نہایت عمدہ آم بھیجتے تھے ۔ اور وہ خود بھی اپنے بعض دوستوں سے تقاضا کر کے آم منگواتے تھے ۔ مرزا کا دل آموں سے کسی طرح سیر نہ ہوتا تھا۔ اہل شہر تحفہ کے طور پر آم بھیجتے تھے، خود بازار سے منگواتے تھے۔ ایک محفل میں مولانا فضل الحق نے مرزا سے آم کے متعلق دریافت کیا تو بولے بھئی ! میرے نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونی چاہیں ۔ میٹھا ہو اور بہت  ہو ۔ مرزا کا جواب سن کر تمام حاضرین محفل ہنس پڑے

If you read Free Urdu Literature Visit this Website.
If you get more Educational Material about Matric and Intermediate for free Visit our Website.
Read More about English Literature visit a very good Website

About admin

Check Also

2nd Year PST MCQs Chapter 3

باب سوم : انتظامی نظام  مشقی کثیر الانتخابی سوالات ( ٹکسٹ بک) 1 وفاق جس کے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *