سبق کا نام: کاہلی
مصنف کا نام: سر سید احمد خان
:مصنف کا تعارف
سرسید احمد خان ۱۷۔ اکتوبر ۱۸۱۷ء میں دلی میں پیدا ہوئے ، آپ حسینی سید تھے ۔ سرسید کے مورث اعلیٰ شاہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے تھے ۔ مغلیہ دربار کے بڑے عہدوں پر فائز ر ہے۔ سرسید احمد خاں نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، قرآن پاک کی تعلیم کے بعد کریما خالق باری وغیر ہ مولوی حمید الدین سے پڑھیں ۔ بعد ازاں گلستان بوستان شرح ملا ” شرح تہذیب پڑھیں۔ سرسید نے اپنے خالو خلیل اللہ خاں سے کچہری کا کام سیکھا۔ ۱۸۳۸ء میں والد محترم کا انتقال ہوا تو سرسید نے شاہی قلعہ میں ملازمت کی بجائے انگریز سرکار کی ملازمت کو ترجیح دی۔ مسٹر رابرٹ ہملٹن جب آگرہ کے کمشنر مقرر ہوئے تو انھوں نے سرسید کو کمشینری کے دفتر میں نائب منشی بنا دیا ۔ پھر قانون کا امتحان پاس کیا ۔ ۱۸۴۱ء میں مین پوری کے حج مقرر ہوئے ۔ سید صاحب کو بہادر شاہ ظفر سے ” جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب ملا
۱۸۵ء میں دلی سے بجنور چلے گئے اور صدر امین مقرر ہوئے ۔ اسی شہر میں تھے کہ ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ برپا ہوا۔ انھوں نے وہاں یورپی باشندوں کی جان بچائی اور ان کو اپنے ہاں پناہ دی۔ ۱۸۶۱ء میں ان کی بیوی کا انتقال ہوا۔ سرسید کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی ۔ ۱۸۷۲ء میں مراد آباد سے غازی پور چلے گئے۔ ۱۸۶۴ ء کو علی گڑھ منتقل ہوئے ۔ ۲۴ دسمبر ۱۸۷۰ءمیں مدرستہ دارلعلوم کی بنیاد رکھی ۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد علی گڑھ میں رہائش اختیار کر لی ۔ جنوری ۱۸۷۷ء میں محمد ن اینگلو اور نیشنل کالج قائم کیا ۔ ۱۸۸۸ء میں سرسید کو ٹائٹ کمانڈہ طبقہ اعلی ستارہ ہند کے ہی ۔ ایس ۔ آئی ) کا اعزاز ملا – ۱۸۸۹ء میں (ایل ایل ڈی) کی ڈگری ملی۔ سرسید نے اردو میں مضمون کی صنف کو رواج دیا۔ خود کثرت سے مضامین لکھے اور اپنے رفقا سے قومی تعلیمی ، مذہبی ، اخلاقی موضوعات پر مضامین لکھوائے ۔ سرسید کا اسلوب نگارش ، سادہ سہل ، بے ساختہ اور تصنع سے پاک ہے۔ سرسید ایک بڑے مصلح اور معمار قوم ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کے اور مصنف بھی تھے ۔ انھوں نے چھوٹی بڑی تھیں سے زائد کتابیں لکھیں ۔ تقریریں ، خطوط اور مضامین کے مجموعے ان کے علاوہ ہیں ۔ ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء کو وفات پائی۔ تصانیف تاریخ سرکش بجنور” “رسالہ اسباب بغاوت ہند خطبات احمدیہ تحبن الكلام “، “احکام طعام اہل کتاب” تفسیر القرآن”، “مقالات سرسید
Easy 9th Class Urdu Summary chapter 3
خلاصہ
کا ہلی ایک ایسا لفظ ہے، جس کا مطلب سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سے محنت کرنا ، کام کاج ، محنت مزدوری میں چستی نہ کرنا، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے میں ستی کرنا کاہلی ہے۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ دلی قوی کو بے کا چھوڑ دینا سب سے بڑی کا ہلی ہے۔ روٹی کما کر کھانے کے لیے ہاتھ پاؤں کی محنت بہت ضروری ہے ۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ بہت کم کاہل ہوتے ہیں۔ جب کہ وہ لوگ جو محنت کو اپنا شعار نہیں بناتے ، وہ اپنے دلی قوی کو بے کار چھوڑ کر کاہل اور حیوانی صفت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اِن پڑھے لکھوں میں سے بہت کر لوگوں کو اپنی تعلیم اور سمجھ کو کام میں لانے کا موقع ملتا ہے ۔ اگر انسان محض عارضی ضرورتوں کا منتظر رہے اور اپنے دلی قوی کو بے کار چھوڑ دے تو وہ نہایت کاہل اور وحشی بن جاتا ہے ۔ انسان بھی حیوانوں کی مانند ایک حیوان ہے، جب اس کے دل کے قوی سست ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی حیوانی خصلت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص جس کی آمدنی اس کے اخراجات کے لیے کافی ہو، اسے محنت و مشقت بھی نہ کرنی پڑے اور وہ دلی قوی کو بے کار چھوڑ دے تو وہ وحشیانہ طور طریقے اپنائے گا اور جوا بازی اور تماش بینی کا عادی ہو جائے گا۔
سرسید مزید کہتے ہیں کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مقامی لوگوں کو ایسے کام بہت کم ملتے ہیں کہ جن سے دلی قوی اور دماغی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے کا موقع ملے ۔ جب کہ مغربی ممالک اور خاص طور پر انگلستان کے لوگوں کے لیے اپنے مواقع بہت زیادہ ہیں ۔ مصنف اپنے ہم وطنوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اگر ہمیں اپنے ملک میں دلی قوی کو کام میں لانے کا موقع نہیں مل رہا تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے کاہلی اختیار کی اور اپنی صلاحیتوں کو بے کار چھوڑ دیا ۔ اگر ہمیں دلی کوی اور عقلی صلاحیتوں کو کام میں لانے کا موقع میسر نہیں تو ہمیں ان مواقع کے حصول کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔ مصنف آخر میں کہتے ہیں کہ قوم کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ
کاہلی کو چھوڑ کر محنت کو اپنا شعار بنائے، کیوں کہ اسی میں قوم کی بہتری اور ترقی کا راز ہے
If you want to get more notes and educational material Visit our Website
For more English Literature Notes Click here to Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit Here.