9th Class Urdu Summary chapter 4

9th-Class-Urdu-summary-chapter-4-blog-featured-image
9th-Class-Urdu-summary-chapter-4-blog-post-image

سبق کا نام: شاعروں کے لطیفے

مصنف کا نام :محمد حسین ازاد

 مصنف کا تعارف

محمد حسین آزاد 1830 ء میں مولوی محمد باقر کے گھر پیدا ہوئے ، والد صوفی تھے، ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی ، بعد میں  دہلی کالج میں تعلیم حاصل کی ۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں آزاد کے والد مولوی محمد باقر کو غداری کے الزام میں گولی مار دی گئی۔ آزاد بے سرو سامانی کے عالم میں لکھنو چلے گئے ۔ پھر 1864ء میں لاہور آئے اور محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی ۔ 1883 ء میں ایران گئے اور فارسی زبان سیکھی ۔ 1887ء میں شمس العلماء کا خطاب ملا – 1889 ء میں بیٹی کی وفات پر ذہنی توازن کھو بیٹھے اور عمر عزیز کے 20 سال اسی حالت میں گزارے۔ آزاد اردو کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ وہ اپنے اسلوب بیان کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی ۔ ان کا تعلیمی اسلوب بیان انھیں اپنے عہد کے ادبیوں اور نثر نگاروں میں منفرد بناتا ہے۔ تخیل آفرینی ، پیکر تراشی ، تقسیم نگاری ، شعریت اور رنگینی، واقعہ نگاری ، نفسیاتی حقیقت آرائی اور مبالغہ آرائی ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ ان کا انداز بیان ، نثر کا ایک ایسا خوب صورت اور دل کش شاہ کار ہے، جس نے ان کے بعد آنے والے ادیبوں کی اکثریت کو متاثر کیا۔ خوب صورت اور دل نشین نثر کے علاوہ ، ان کا ایک بڑا کارنامہ ، اُردو میں جدید طرز شاعری ہے، جس کی ابتدا انجمن پنجاب لاہور کے مشاعروں سے ہوئی، جس کے وہ سیکرٹری تھے ۔ جنوری 1910ء میں وفات پائی۔

 اہم تصانیف

آب حیات، نیرنگ خیال ، در باراکبری قصص ہند سخندان فارس و غیره آزاد نے اپنے استاد، ابراہیم ذوق کا دیوان بھی آزاد نے مرتب کیا۔ آزاد نے موضوعاتی نظمیں بھی لکھیں، جو نظم آزاد میں شامل ہیں۔

Easy 9th Class Urdu Summary chapter 4

 ایک دن لکھنو میں دو شخصوں کے درمیان میرتقی میر اور مرزا سودا کے کلام پر بحث طویل ہوگئی۔ خواجہ باسط جو کہ دونوں کے مرشد تھے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں با کمال شاعر میں فرق صرف اتنا ہے کہ میر کا کام آہ ہے اور مرزا سودا کا کلام” واہ” ہے۔ ایک دن مرزا سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے ۔ ایک شریف زادے نے غزل کا مطلع پڑھا۔ مرزا سودا نے اُس کی بے حد تعریف کی اور کہا “میاں جوانی کی عمر تک پہنچتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ۔ خدا کی قدرت چند ہی دنوں میں وہ لڑ کا جل کر مر گیا۔ ایک دن انشاء اللہ خان ، جرأت سے ملنے کے لیے آئے ۔ جرآت سر جھکائے کسی خیال میں مگن تھے ۔ سید انشا نے وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ایک مصرع ذہن میں آیا میں  چاہتا ہوں کہ دوسرا بھی ہو جائے تاکہ مطلع مکمل ہو جائے ۔ سید انشا کے اصرار پر انھوں نے مصرع سنادیا تو سید انشا نے فوراً دوسرا مصرع سنا کر شعر مکمل کر دیا۔ ایک دن شیخ امام بخش مشاعرے میں اختتام پر پہنچے، خواجہ حیدر علی آتش نے انھیں بتایا کہ سب حاضرین آپ سے ملنے کا شوق رکھتے تھے۔ ناسخ نے موقع کی مناسبت سے ایک شعر سنایا ۔ جسے سن کر محفل میں موجود سبھی لوگوں نے تعریف کی۔ خواجہ حیدر علی آتش کے ایک شاگرد نے بے روزگاری سے تنگ آکر بنارس جانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ چناں چہ آتش نے اسے کہا کہ بنارس کے خدا کو میر اسلام کہنا ۔ یہ سن کر اُس شاگرد نے عرض کی ، حضرت کیا یہاں کا اور بنارس کا خدا الگ الگ ہے۔ آتش نے فرمایا کہ جب تم جانتے ہو دونوں جگہوں پر خدا ایک ہے تو پھر ہم سے دور کیوں جاتے ہو ۔ جو خدا وہاں رزق دے سکتا ہے یہاں دینے پر بھی قادر ہے۔ اس لیے تسلی رکھو۔ چناں چہ اس نے سفر کا ارادہ ترک کر دیا۔ ایک دن معمول کا دربار تھا۔ استاد ابراہیم ذوق بھی اس محفل میں تشریف فرما تھے۔ ایک مرشد زادے تشریف لائے اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے قریب آکر کچھ پیغام دیا اور فور ارخصت ہو گئے۔ حکیم احسن اللہ خان نے بادشاہ سے پوچھا حضور یہ مرشد زادے کا اس قدر جلدی آتنا اور پھر جلدی چلے جانا کیا تھا؟ بادشاہ کی زبان سے بے ساختہ یہ مصرع نکلا کہ  اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے۔ یہ مصرع سن کر ابراہیم ذوق نے فورا شعر مکمل کر دیا لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے مرزا غالب کی تصنیف ” قاطع برہان کے جواب میں کئی لوگوں نے لکھا۔ کسی نے دریافت کیا کہ حضرت آپ فلاں شخص کی کتاب کا جواب کیوں نہیں لکھتے تو مرزا صاحب نے کہا کہ میاں اگر کوئی گدھا تمھارے لات مارے تو تم کیا جواب دو گے؟

If you want to get more notes and educational material Visit our Website
For more English Literature Notes Click here to Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *