سبق کا نام:آرام و سکون
مصنف کا تعارف
سید امتیاز علی تاج 1900ء میں لاہور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ، مولوی ممتاز علی کو شمس العلما کا خطاب ملا۔ امتیاز علی تاج نے سنٹرل ماڈل سکول لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی ۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں منفر د انگریزی ڈراموں کے تراجم کر کے سٹیج پر پیش کیے ۔ ۱۹۳۲ء میں مشہور زمانہ ڈراما انار کلی لکھا۔ ان کے مزاحیہ کی چچا چھکن کے نام سے شائع ہوئے اور بہت مقبول ہوئے ۔ رسالہ تہذیب نسواں اور پھول کے مدیر رہے۔ ریڈیو پروگرام پاکستان ہمارا ہے ، شروع کیا اور ریڈیو کے لیے درجنوں ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بہت سی فلمی کہانیاں بھی ان کی تحریر کردہ ہیں۔ وہ مجلس ترقی ادب لاہور کے سیکرٹری بھی رہے۔ اپریل ۱۹۷۰ء میں ان کو نا معلوم شخص نے قتل کر دیا۔ امتیاز علی تاج کے ڈراموں میں تمام لسانی خوبیاں موجود ہیں ۔ ان کی تحریر سادہ اور بے تکلف ہے ۔ وہ الفاظ کا استعمال بڑے سلیقے سے کرتے ہیں اور معمولی الفاظ کو بھی اتنی خوش اسلوبی سے استعمال کرتے ہیں کہ وہ قاری کے ذہن پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں۔ اُن کے ڈراموں کی زبان سلیس اور رواں ہے۔ امتیاز علی تاج کرداروں کی تخلیق میں بڑی فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کو نفسیاتی تجزیے کے ساتھ زندہ اور متحرک ہوتے ہیں۔ آگے بڑھاتے ہیں ۔ وہ محض کٹھ پتلی نہیں ہوتے بلکہ جان امتیاز علی تاج کے ڈراموں میں بستی ، برجستگی اور بے ساختگی ملتی ہے۔ کسی ڈرامے کی کامیابی کا دارو مدار اس کے مکالموں پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مکالمہ نگاری کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ ان کے ہاں جذبات نگاری کی ایسی حسین مثالیں ملتی ہیں جو اردو کے ڈرامائی ادب میں بہت کم دستیاب ہیں۔ ان کا ایک معروف ڈراما آرام و سکون اس کی واضح مثال ہے کہ اُن کے مزاح میں کہیں کوئی تکلف نظر نہیں آتا۔ بس اُنھوں نے معمول کے واقعات اور کرداروں کے سیدھے سادے مکالموں سے مزاح پیدا کیا ہے
تصانیف
سید امتیاز علی تاج کی مشہور تصانیف میں محاصرہ (ناول) انارکلی ( ڈرامہ )، چچا چھکن ( طنز و مزاح ) ہیبت ناک افسانے، قرطبہ کا قاضی اور دوسرے بابی ڈرامے شامکل ہے
خلاصہ
مصنف کہتے ہیں کہ میاں اشفاق صاحب بیمار ہیں۔ بیگم صاحبہ ڈاک کو بلواتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن کا معائنہ کیا اور بیگم صاحبہ کو تسلیم دیتے ہوئے کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ میاں صاحب کو دوا سے زیادہ
آرام کی ضرورت ہے۔ بیگم صاحبہ ڈاکٹر سے کہتی ہیں کہ آپ انھیں سمجھائیں کہ ان کے لیے آرام کتنا ضروری ہے اور یہ ہر وقت کام میں مصروف رہتے ہیں۔ میں انھیں آرام کا کہتی ہوں تو مانتے ہی نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب چلے جاتے ہیں تو بیگم صاحبہ اپنے میاں کو آرام کے لیے کہتی ہیں، مگر عملاً گھر کا ماحول ایسا ہے کہ سکون غائب ہے۔ گھر میں بے سکونی کی فضا پیدا کرنے اور شور برپا کرنے میں بیگم کا بھی بڑا حصہ ہے۔
میاں ہائے ہائے کر رہے ہیں کہ مجھے سکون کی ضرورت ہے مگر بیگم انہیں بار بار بلا کر آرام میں مخل ہوتی ہیں اور پریشان کرتی ہیں۔ کبھی کھانے کا پوچھتی ہیں اور نہ صرف پوچھتی ہیں بلکہ با قاعدہ بحث بھی کرتی ہیں۔ کبھی بلند آواز سے نوکر کو ڈانٹتی اوربرا بھلا کہتی ہیں۔ شوہر بے چارا کڑھتا ہے، کراہتا ہے مگر بیگم کی بے وقوفی پرکھل کر احتجاج بھی نہیں کر سکتا۔ جب سقادر دوازہ کھٹکھٹاتا ہے تو اُسے خوب ڈانٹتی ہیں۔ ادھر بچہ کھلونا گاڑی سے بے ہنگم آواز پیدا کرتاہے تو بیگم چیختی ہیں کہ انھیں آرام کی ضرورت ہے۔ جب بچہ منع کرنے کے باوجود بھی گاڑی چلانا بند نہیں کرتا تو بیگم اسے مارتی ہیں۔ اس کے رونے سے میں مزید شور ہوتا ہے۔ میاں بے چین ہو کر کراہتے ہیں۔ بیگم جھاڑو دینے والے ملازم کو برا بھلا کہتی ہیں۔ میاں پریشان ہو کر تنہائی کی گزارش کرتے ہیں۔ چند لمحوں بعد بیگم کی کسی سہیلی کا ٹیلی فون آ جاتا ہے جب کہ بیگم کسی اور کمرے میں ہوتی ہیں ۔ اس لیے مجبوراً شوہر کو اٹھ کر فون سننا پڑتا ہے۔ بڑی مشکل سے بیگم کی سہیلی کو ٹالتے ہیں۔ بیگم آکر ناراضی کا اظہار کرتی ہیں کہ آپ نے اُن کا نام کیوں نہیں پوچھا۔ اسی وقت پڑوس سے گانے کی آواز آنے لگتی ہے۔ کوئی صاحب زادے ہارمونیم پر گانے کی مشق کرنے میں مصروف تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد دروازے پرایک سوالی آ کر صدا لگاتا ہے۔ میں بے حد پریشانی ک عالم میں ہوں۔ رہی سہی کسر نوکر للو نے پوری کر دی ۔ وہ ہاون دستے میں ریٹھے کوٹ رہا تھا۔ میاں تنگ آکر ہائے توبہ ہائے تو بہ کرتے ہیں۔ بیگم چیخ کر نوکر کو ڈانٹتی ہیں ۔ شوہر ہائے ہائے کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں بیگم سے ٹوپی اور شیروانی منگواتے ہیں بیگم پوچھتی ہیں کہ کیوں منگوا رہے ہیں شوہر بتاتے ہیں کہ آرام وسکون کے لیے دفتر شوہر جارہاہوں