
سبق کا نام: لہو اور کالین
مصنف کا نام: مرزا ادیب
مصنف کا تعارف:
میرزا ادیب کا اصلی نام دلاور علی اور قلمی نام میرزا ادیب ہے ۔ میرزا ادیب 1914 ء میں پیدا ہوئے ۔ ۱۹۳۱ ء میں اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے میٹرک کرنے کے بعد انھوں نے ۱۹۳۵ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی ۔ اے آنرز کیا۔ میرزا ادیب کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۶ ء سے ہوا۔ اس زمانے میں اسلامیہ کالج لاہور میں بہت سی علمی وادبی شخصیتیں موجود تھیں جنھوں نے میرزا کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں معاونت کی ۔ میرزا نے ابتدا میں شعر و شاعری کی طرف توجہ دی مگر جلد ہی اسے ترک کر کے افسانہ اور ڈراما نگاری کی طرف آگئے ۔ انھوں نے ۱۹۳۵ء میں رسالہ ” ادب لطیف کی ادارت سنبھالی اور طویل عرصے تک اس سے وابستہ رہے۔ پھر ریڈیو پاکستان میں ملازم ہو گئے۔ میرزا ادیب یک بابی اور ریڈیائی ڈراما نگاری میں اہم مقام رکھتے ہیں تقسیم ہند کے بعد اردو ادب میں یک بابی ڈراے کو جو فروغ ملا، اس میں میرزا ادیب نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ معاشرے کے نبض شناس تھے، اس لیے ان کے ڈراموں کے موضوعات عام اور روزمرہ زندگی سے متعلق ہیں۔ اپنے معاشرے کی انسانی خواہشات اور توقعات کو میرزا ادیب نے خاص اہمیت دی ہے۔ میرزا ادیب نے کردار نگاری کے سلسلے میں بھی گہرے مشاہدے ، انمول بصیرت اور فن کارانہ گرفت سے کام لیا ہے۔ انھوں نے زندگی کے عام کرداروں کو ڈارا مائی کرداروں کا درجہ دیا ہے۔ ان کے مکالمے نہایت برجستہ مختصر اور بر محل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ڈراموں میں قاری یا ناظر کی دل چسپی شروع سے آخر تک قائم رہتی ہے جو کسی کامیاب ڈراما نگار کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ آپ کا انتقال 1999 ء میں ہوا
:خلاصہ
ڈراما لہو اور قالین چار کرداروں پرمشتمل ہے۔ جس میں بابا ایک نوکر ہے تجمل ایک سرمایہ دار ہے جب کہ رؤف اس کا پرائیویٹ سیکرٹری اور چوتھا اہم اور مرکزی کردار مصور اختر کا پیش کیا گیاہے۔ سردار تجمل حسین کی کوٹھی النشاط” کے بڑے کمرے کو اختر اسٹوڈیو کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ کمرا نہایت اعلیٰ فرنیچر، قالین، صوفہ سیٹ ، کرسیوں مشہور مصوروں کی تصویروں سے آراستہ اور تروتازہ پھلوں سے مزین ہے۔ تجمل حسین کی عمر چالیس اور پینتالیس سال کے درمیان ہے اور صحت بھی نہایت اچھی ہے ۔ وہ ایک صبح کمرے میں داخل ہوتا ہے اور ملازم بابا سے اختر کے بارے میں دریافت کرتا ہے۔ بابا تجمل حسین کو اختر کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ باغ میں ٹہل رہا ہے اور رات بھر ٹہلتا رہتا ہے۔ تجمل کہتا ہے کہ مصوروں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت کسی نہ سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں ۔ تجمل نے بابا سے کہا کہ اختر کو بلا لاؤ۔ اس کے بلانے پر جب اختر آتا ہے تو وہ اسے خوش خبری سناتا ہے کہ ججوں نے اُس کی تصویر کواول انعام کا مسحق قرار دیا ہے۔ اختر بے نیازی سے کہتا ہے کہ یہ خبر مجھے اخبار سے معلوم ہو چکی ہے۔ تجمل کہتا ہے کہ یہ تمھارا بہت بڑا کارنامہ ہے اور اس خوشی پر میں نے شہر کے معززین کو چائے پر مدعو کیا ہے اور وہ آج شام تمھیں مبارک باد دینے کے لیے آ رہے ہیں
اختر تجمل سے کہتا ہے کہ وہ یہاں سے جانا چاہتا ہے۔ تجمل اُس سے پوچھتا ہے کہ تمھیں یہاں کسی چیز کی کمی ہے ۔ یہاں آکر تم نے عظیم کارنامے انجام دیے ہیں ۔ آج تم ملک کے نامور مصور ہو تمھیں اتنی بڑی کامیابی ملی ہے اور تم جانا چاہتے ہو۔ یہ تمھاری بڑی بے وقوفی ہے ۔ اگر تم چلے جاؤ گے تو لوگوں میں میری کیا عزت رہ جائے گی ۔ اختر تجمل سے کہتا ہے کہ جس اختر کو آپ ایک تاریک جھونپڑی سے نکال کر اپنے محل میں لائے تھے وہ اب چلتی پھرتی لاش ہے ۔ گزشتہ ڈیڑھ برس میں جتنی تصویر میں اس کے نام سے باہر گئی ہیں، ان میں سے ایک بھی اُس کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔
اختر تحمل سے کہتا ہے کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں غریب تھا اور گمنامی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ آپ نے مجھ پر احسان کیا اور مجھے زندگی کی ضروریات سے بے نیاز کر دیا۔ آپ کی اس غریب پروری کی وجہ سے میں آپ کو دیوتا سمجھے گا لیکن جلد ہی یہ حقیقت ظاہر ہوگئی کہ آپ نے اپنی امارت کی نمائش کے لیے مجھے اور میرے فن کو استعمال کیا۔ جب مجھے اس بات کا احساس ہوا تو میرے فن پر جمود طاری ہو گیا۔ ایک فن کار یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کا فن اپنی حقیقی خوبی کھو کر کسی کے لیے محض ایک ذریعہ شہرت بن کر رہ جائے ۔ اختر بتاتا ہے کہ انہی دنوں میں اس کی ملاقات ایک غرب روزگار مصور نیازی سے ہوئی ۔ میں اُس سے تصویریں بنوا کر لاتا اور اپنے نام سے آپ کو دیتا رہا اور اس کے عوض ملنے والی رقم اسے دیتا تھا۔ وہ پہلے کی طرح مفلس نہیں رہا۔ وہ اپنی بہن کی شادی کر چکا ہے اور اسے روٹی کپڑے کی بھی تکلیف نہیں رہی۔ تجمل اختر سے کہتا ہے کہ تم نے مجھے دھوکے میں رکھا ہے۔ تم نے میرے احسانات کا بھی خیال نہیں کیا، تمھیں شرم آنی چاہیے ۔ اختر کہتا ہے کہ شرم تو تمھیں آنی چاہیے کہ تم نے ایک مصور کے فن کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنایا۔ اتنے میں تجمل کا سیکرٹری رؤف آکر تصدیق کرتا ہے کہ اختر کو اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور اختر کو یہ افسوس ناک خبر سناتا ہے کہ نیازی نے خود کشی کر لی ہے۔ اختر یہ خبر سن کر انتہائی مغموم اور افسردہ ہوتا ہے اور تجمل کو چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ تم نے دو قتل کیے ہیں۔ ایک مصور کے فن کو مار ڈالا ہے اور دوسرے مصور کی جان لے لی ہے ۔ تجمل رؤف سے کہتا ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دو، یہ اب پاگل ہو گیا ہے اسے پاگل خانے بھجوا دو