In this section, we will discuss the key points of the 9th Class Urdu Summary chapter 9.
9th Class Urdu Summary Chapter 9 Overview
سبق کا نام: امتحان
مصنف کا نام :مرزا فرحت اللہ بیگ
مصنف کا تعارف

مرزا فرحت اللہ بیگ ۱۸۳ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے سینٹ اسٹیفنز کالج سے بی اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ڈرامے اور کرکٹ کے شوقین تھے ۔ ۱۹۰۷ء میں حیدر آباد دکن میں منقل ہوگئے اور وہاں پہلے محکمہ تعلیم اور پھر عدالت سے وابستہ رہے۔ محکمہ عدالت میں ترقی کرتے کرتے ہوم سیکرٹری کے عہدے تک پہنچ گئے ۔ اسی عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد حیدر آباد میں ہی مقیم رہے ۔ انھوں نے ۱۹۴۷ء میں حیدر آباد ہی میں وفات پائی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے صاحب طرز مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی وجہ شہرت ان کے مزاحیہ مضامین ہیں۔ ان کی تحریروں سے ان کے مشاہدے کی وسعت اور گہرائی کا پتہ چلتا ہے ۔ وہ اپنی تحریر میں شستہ اور شائستہ الفاظ استعمال کرنے ہیں ۔ ان کی ظرافت میں ایک مقصد ہوتا ہے اور واقعات کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مزاح کی چاشنی ان کی تحریر میں خاص لطف دیتی ہے ۔ بقول رشید احمد صدیقی : فرحت کے اسلوب کی نمایاں خوبی فقروں کا اختصار ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے فقروں سے رواں دواں عبارت کا جادو جگاتے ہیں ۔ فرحت کی تحریروں میں اسلوب کی یکسانیت، معجزے کی حد تک آن رہتی ہے۔ وہ ایک مضمون کو سرنگ میں شروع کرتے ہیں ، اس رنگ میں انجام تک پہنچاتے ہیں ۔ مرزا فرحت اللہ بیگ ابتدائی مرز الم نشرح کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔ بابائے اردوڈاکٹر مولوی عبد الحق اور عظمت اللہ خاں نے ان کی ہمت بڑھائی تواپنے اصل نام سے لکھنے لگے۔
تصانیف
نزیر احمد کی کہانی پھول والوں کی سیر اور دلی کا ایک یادگار مشاعرہ ان کے یادگار مضامین ہیں ان کے مضامین فرحت” کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ مرزا فرحت اللہ قادر الکلام شاعر بھی تھے ۔ ” میری شاعری ان کے کلام کا انتخاب ہے۔
خلاصه
مصنف کہتا ہے کہ لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن مجھے اُن کے گھبرانے پر ہنسی آتی ہے۔ آخرامتحان میں ایسی کون سی پریشان کن بات ہے ؟ امتحان کی دو صورتیں ہیں ، فیل یا پاس۔ اس سال پاس نہ ہوئے تو آئندہ سال ہی ۔ جوں ہی امتحان کے دن قریب آتے ہیں، میں اپنے ہم جماعتوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ لیکن مجھ پر امتحان کا اثر ذرا بھی نہیں ہوتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ تمام عمرامتحان ہوتے رہیں مگر پڑھنے کی شرط نہ ہو۔ میں نے دو سال میں لا کلاس کا کورس مکمل کر لیا۔ میں جاتا۔ میں شام ہوتے ہی دوستوں کے ساتھ سیر وتفریح ہے لیے نکل جاتا واپسی کے وقت لا کلاس میں بھی جھانک آتا منشی صاحب دوست تھے اس لیے حاضری کی پریشانی نہیں تھی والد صاحب بھی خوش تھے کہ بیٹا بڑے شوق سے قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ امتحان کی تیاری کے دن قریب آگئے تو میں نے والدین سے مطالبہ کیا کہ لگ کمرے کا انتظام کیا جاے تا کہ دل جمعی سے تیاری کروں۔ اماں جی نے کمرا خالی کر دیا تو دروازوں کے شیشوں پر کاغذ چپکا دیا اور لیپ روشن کر کے شام سات بجے سے صبح نو بجے تک سویا رہتا اورگھر والے سمجھتے کہ شاید بہت منت کر رہا ہے والدین کہتے ہے کہ ان محنت نہ کرو تو میں زمانے کی ترقی کانقشہ کھنچ کر انہیں تسلی دے دیتا۔ امتحان کے دن قریب آئے تو میں نے احتیاطاً گھر والوں کو کہہ دیاکہ میری تیاری مکمل نہی ہے اگر فیل ہوگیا تو میری ذمہ دار نہ ہوگی والد صاحب فرماتے کہ بیٹا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے محنت کی ہے تو امتحان میں شرکت کرو۔ کامیابی اور نا کامی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
چناں چہ امتحان والے دن مقام امتحان پر پہنچ گیا جب کہ تیاری بالکل نہیں کی تھی ۔ تاہم دو وجہ سے کامیابی کی امید تھی امداد غیبی اور پر چوں کی الٹ پھیر ۔ ٹھیک دس بجے پرچہ تقسیم ہوا۔ میں نے سرسری نظر ڈالی اور رکھ دیا۔ کئی بار پڑھنے پر بھی معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کس مضمون کا پرچہ ہے ۔ نگران صاحب سے پوچھا تو انھوں نے مسکرا کر عنوان پر انگلی رکھ دی۔ اُس وقت معلوم ہوا کہ اصولِ قانون کا پرچہ ہے ۔ اس لیے اس عنوان کے متعلق جتنی باتیں دماغ میں آئیں لکھ ڈالیں۔ میں نے ادھر ادھر پوچھنے کی کوشش کی تو گارڈ صاحب میرے سر پر سوار رہتے اور کہتے جناب! اپنے پرچے پر نظر رکھیے ۔ جب امداد غیبی کی توقع ختم ہوگئی تو میں نے گارڈ صاحب سے پوچھنے کی کوشش کی اور جب سوال کا جواب پوچھا تو مسکرا کر بولے ” مجھے معلوم نہیں ایسی حالت میں جب کہ ایک لفظ بھی نہ آتا ہو تین گھنٹے گزارنا بہت مشکل کام تھا۔ میں تو فوراً باہر آ جاتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ والد صاحب ٹھیک گیارہ بجے صحن میں آکر بیٹھ جاتے اور پرچے کے اختتام تک بیٹھے رہتے ۔ اس لیے مجبوراً امتحان کے کمرے میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ پر چہ ختم ہونے پر والد صاحب سے پرچے کی سختی کی شکایت کرتا دمت سے تو وہ میرا حوصلہ بڑھاتے اور کامیابی کی اُمید دلاتے۔ الغرض امتحان ختم ہوا اور امید نمبر ایک اور دو بھی نا کام ہوگئیں ۔ اب ممتحنوں کے پاس کوشش کی سو جھی، والد صاحب سفارشی رقعہ لے کر ایک صاحب کے پاس تشریف لے گئے لیکن انھوں نے والد صاحب کو شرمندہ کر دیا۔
کچھ عرصے کے بعد نتائج کا اعلان ہوگیا اور میں تمام مضامین میں بری طرح فیل ہوگیا اور تمام پرچوں میں صرف دو نمبر ملے۔ والد صاحب کو بہت دکھ ہوا۔ بالآخر یہی رائے قرار پائی کہ کسی بد معاش چپر اسی نے پر چے بدل دیے ہیں ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ تین گھنے مسلسل لکھا جاتا اور صفر ملتا۔ میں نے سوالوں کے جوابات والد صاحب کو بھی سنائے ، انھوں نے بہت تعریف کی اور ممتحنوں کو بہت برا بھلا کہا۔ والد صاحب ۔ نے مجھے حوصلہ دیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سال نہیں تو آئندہ سال سہی۔ اس طرح ہمیں ایک سال کی فرصت مل گئی
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit Ilm ka Safar website.
If Want to study Matric and intermediate level STUDY Material then Click Here