سبق کا عنوان:کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ
مصنف کا نام: ڈپٹی نذیر احمد
مصنف کا تعارف
ڈپٹی نظیر احمد( 1836 تا 1912) اردو ادب کی تاریخ میں ایک نمایاں شخصیات ہیں جنہیں اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے ان کی زندگی کا سفر تعلیمی و ادبی سرگرمیوں سے بھرا ہوا ہے اور انہوں نے اردو زبان و ادب کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم:
ڈپٹی نظیر احمد کا جنم ضلع بجنور یوپی بھارت میں ہوا آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد مولوی سعادت علی سے حاصل کی۔ بعد میں آپ نے مولوی عبدالخالق کے درس میں شمولیت اختیار کی جہاں آپ نے عربی فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔
عملی زندگی:
آپ نے دلی کالج میں داخلہ لیا جہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرس کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا آپ کی محنت اور قابلیت کے سبب آپ کو جلد ہی انسپیکٹر مدراس مقرر کر دیا گیا۔
انگریزی زبان کی تعلیم:
ڈپٹی نظیر احمد کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے انگریزی زبان بھی سیکھ لی جو ان کے علمی کیریئر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔
سرکاری ملازمت:
آپ کو انڈین پینل کوڈ کے ترجمے کی وجہ سے پہلے تحصیلدار اور بعد میں افیسر کے بندوبست کے عہدے پر ترقی دی گئی اس کے بعد آپ ریاست حیدرآباد چلے گئے جہاں آپ نے ممبر بولڈ آف ریونیو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
ادبی خدمات:
ریٹائرمنٹ کے بعد اپ نے اپنی زندگی تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دی آپ کو شمس العلماء کا خطاب عطا کیا گیا اور آپ کو پنجاب یونیورسٹی اور ایڈنبرا یونیورسٹی سے بھی اعزازی ڈگریاں حاصل ہوئیں۔
ناول نگاری:
ڈپٹی نظیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار مانا جاتا ہے آپ کی مشہور تخلیقات میں مرآت العروس ، توبۃ النصوح ،رویائے سادقہ ، بنات النعش اور ابن الوقت شامل ہیں آپ نے اپنے ناولوں میں حقیقی زندگی کے کرداروں کو پیش کیا جبکہ آپ کی کہانیوں میں اصلاح سبق آموزی اور حقیقت پسندی کا عنصر نمایا تھا۔
زبان و بیان:
ڈپٹی نظیر احمد دلی کی صاف اور بامحاورہ زبان کے ماہر تھے خاص طور پر دلی کی خواتین کی روز مرہ زبان کا استعمال کرتے تھے آپ کی کہانی بیان کرنے کی صلاحیت اور کردار نگاری کی مہارت آپ کو ادبی دنیا میں ممتاز کرتی ہے۔
قرآن مجید کا ترجمہ:
آپ نے قران مجید کا ترجمہ بھی کیا جو آپ کی علمی اور دینی قابلیت کا آغاز ہے ڈپٹی نظیر احمد کے ادبی خدمات اور علمی کارنامے اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے اور انہیں اردو ناول نگاری کی بنیاد رکھنے والی ایک عظیم شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔
سبق کا عنوان: کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ
خلاصہ:
ڈپٹی نظیر احمد کے ناول توبۃ النصوح کا یہ اقتباس دو کرداروں کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ کے درمیان ہونے والے واقعات کو بیان کرتا ہے جن میں نصوح کے بیٹے کلیم کی بد اعمالیوں اور اس کے دوست مرزا ظاہر دار بیگ کے جھوٹ اور مکاری کو نمایاں کیا گیا ہے کلیم جو نصوح کا بڑا بیٹا ہے اپنی بد عادتوں اور باپ کی نصیحتوں کو نظر انداز کرنے کے بعد گھر میں والدین سے جھگڑا کرتا ہے اور گھر چھوڑ کر اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ کے پاس چلا جاتا ہے مرزا اپنے آپ کو صاحب جائداد ظاہر کرتا ہے مگر حقیقت میں وہ ایک جھوٹا اور دھوکے باز شخص ہے کلیم رات کے وقت مرزا کے محل نما مکان پر پہنچتا ہے لیکن وہاں کی نوکرانیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مرزا کسی قیمتی مکان میں نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہتا ہے مرزا کلیم کو دیکھ کر جھوٹی کہانیاں سناتا ہے کہ وہ جمعدار صاحب کا وارث ہے اور لوگ اس کی جائیداد میں رخنہ ڈال رہے ہیں حالانکہ حقیقت میں اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔مرزا کی چرب زبانی اور دھوکہ دہی کے باعث کلیم کو ایک پرانی خستہ حال اور ویران مسجد میں ٹھہرنا پڑتا ہے جہاں چمگادڑوں کے شور اور مٹی سے اٹی ہوئی جگہ پر اسے رات گزارنی پڑتی ہے مرزا کھانے کے لیے چنے لا کر اپنی چرب زبانی سے ان کی خوبیاں بیان کرتا ہے لیکن کلیم کی بھوک مٹانے کے لیے وہ ناکافی ہوتے ہیں صبح ہونے پر کلیم کو یہ پتہ چلتا ہے کہ مرزا نے اس کی بھیجی ہوئی دری اور تکیہ سمیت دیگر چیزیں غائب کر دی ہیں مسجد سے نکل کر جب کلیم مرزا کے گھر پہنچتا ہے تو وہاں مرزا غائب ہوتا ہے اور اہل خانہ اس سے چیزوں کی واپسی کا تقاضا کرتے ہیں آخر کار کلیم کے حالات اتنے خراب ہو جاتے ہیں کہ محلے کے لوگ اسے چور سمجھ کر کوتوال کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کوتوال کے سامنے کلیم اپنی شناخت کروانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی خراب حالت اور ظاہری حلیے کے باعث کسی کو اس کی باتوں پر یقین نہیں آتا کوتوال اس کے والد نصوح کو بلوانے کا حکم دیتا ہے تاکہ کلیم کی شناخت کی تصدیق ہو سکے اس کہانی کے ذریعے یہ دکھایا گیا ہے کہ والدین کی نافرمانی اور بری صحبت کے انجام کی حالت عبرت کا نمونہ ہے جو اپنی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرتا اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے مرزا ظاہر دار بیگ کے کردار سے جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی کے منفی اثرات کو واضح کیا گیا ہے جو نہ صرف خود کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگی بھی متاثر کرتے ہیں۔