New 9th Class Urdu Summary chapter 4

New 9th Class Urdu Summary chapter 4

سبق کا عنوان: نام دیو مالی 

مصنف کا نام: مولوی عبدالحق

New 9th Class Urdu Summary chapter 4

مصنف کا تعارف 

ابتدائی زندگی:

مولوی عبدالحق 20 اپریل 1870 کو ضلع میرٹھ کے ایک چھوٹے سے قصبے ہاپوڑ میں پیدا ہوئے آپ کا خاندانی تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا ان کے والد کا نام شیخ علی حسن تھا جنہوں نے مولوی عبدالحق کو ابتدائی تعلیم گھر پر ہی دی اس کے بعد انہوں نے مزید تعلیم کے لیے میرٹھ کا رخ کیا جہاں انہوں نے رسمی تعلیم کا آغاز کیا بعد ازا مولوی عبدالحق نے سر سید احمد خان کے قائم کردہ ایم اے او کالج علی گڑھ سے بی اے کیا یہاں پر انہیں پروفیسر تھامس آرنلڈ سرسید، احمد خان، حالی اور شبلی نعمانی جیسی مشہور شخصیات کی صحبت ملی جس نے ان کی علمی و فکری نشونما میں اہم کردار ادا کیا۔

پیشہ وارانہ زندگی:

مولوی عبدالحق نے حیدرآباد دکن کے ایک سکول میں بطور استاد ملازمت اختیار کی بعد ازاں انہوں نے حیدرآباد دکن کے صدر مہتم تعلیمات کے عہدے پر کام کیا اور بعد میں اورنگ آباد کالج میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے مولوی عبدالحق نے اپنی تعلیمی خدمات کے دوران جامع عثمانیہ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا جہاں ان کا مقصد اردو کو جدید علوم اور سائنس کی تعلیم کے لیے ذریعہ بنانا تھا انہوں نے اردو زبان میں مختلف علمی و فنی کتابوں کا ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا تاکہ اردو کو دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے برابر لایا جا سکے۔

تقسیم ہند کے بعد کا دور :

تقسیم ہند کے بعد مولوی عبدالحق پاکستان منتقل ہو گئے اور جامعہ کراچی میں بطور اعزازی پروفیسر خدمات انجام دینے لگے اس دوران انہوں نے اردو زبان کی ترقی کے لیے انجمن ترقی اردو کے ساتھ کام شروع کیا اور مرتے دم تک اس ادارے کی ترقی اور فروغ کے لیے کوشاں رہے مولوی عبدالحق نے کراچی میں اردو کالج کی بنیاد رکھی جو اب وفاقی اردو یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں علوم، سائنس، تجارت اور قانون کی تعلیم اردو میں دی جاتی ہے۔

ادبی خدمات :

مولوی عبدالحق کی علمی ادبی تعلیمی اور تحقیقی خدمات بے حد وسیع اور گہرے اثرات کی حامل ہیں انہوں نے اپنی تحریروں میں خلوص سادگی استدد لالیت ، مقصدیت اور جامعہ کو نمایاں رکھا ان کی تحریروں میں جدید اور قدیم اسلوب کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے انہوں نے نہ صرف اپنے معاصر ادبی حلقے کو متاثر کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے اسلوب پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔

تصانیف: مولوی عبدالحق کی تصانیف اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں ان میں اردو کی نشونما میں صوفیا کرام کا کام، مرحوم دلی کالج ، سرسید احمد خان، حالات و افکار، افکار حالی، مقدمات عبدالحق، خطبات عبدالحق مکتوبات عبدالحق اور چند ہم عصر جیسی کتب شامل ہیں ان کی تصانیف میں نہ صرف تاریخی اور ادبی مواد شامل ہے بلکہ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے لیے ان کے نظریات اور خیالات بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔

وفات:

مولوی عبدالحق نے اپنی پوری زندگی اردو زبان کی خدمت میں گزاری ان کی وفات 16 اگست1961کو کراچی میں ہوئی لیکن ان کے علمی ادبی خدمات اور اردو کے لیے ان کی محبت ہمیشہ زندہ رہے گی مولوی عبدالحق کی زندگی اور خدمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے خلوص نیت اور انتھک محنت سے کیا کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں اردو زبان کا محافظ اور فروغ دہندہ کہا جا سکتا ہے۔

سبق کا عنوان: نام دیو مالی 

خلاصہ:

کیس ہو کوہ کن ہو یا حالی

 عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں

نام دیو مقبرہ رابعہ دورانی کے باغ میں مالی تھا وہ اپنے کام کو ایک مشن کی طرح انجام دیتا تھا اور اس میں اس قدر محو رہتا تھا کہ دنیا و مافیا سے بے خبر ہو جاتا اس کا چمن اس کے لیے صرف ایک باغ نہیں بلکہ اس کی اولاد کی مانند تھا وہ پودوں کی دیکھ بھال اس محبت اور دلجمعی سے کرتا تھا جیسے ایک ماں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے ہر پودے کے پاس بیٹھ کر وہ اس کی مٹی صاف کرتا پانی دیتا اس کی شاخوں کو درست کرتا اور اس سے باتیں کرتا اس کی یہ محبت اور لگن دیکھ کر راوی بھی اس سے متاثر ہوتا اور اکثر اسے دیکھنے میں وقت گزار دیتا نام دیو کی زندگی کا سب سے اہم پہلو اس کی محنت اور  دیانت داری تھی وہ اپنے کام میں اس قدر مگن رہتا تھا کہ اسے نہ ستائش کی تمنا تھی اور نا صلے کی پرواہ اس کا چمن ہمیشہ سبز و شاداب رہتا حتی کہ قہط سالی کے دوران بھی جب پورا علاقہ پانی کی قلت سے متاثر  ہوا نام دیو مالی نے نہ صرف اپنے پودوں کو زندہ رکھا بلکہ ان کی حالت کو بہتر بنایا وہ دن رات ایک کر کے  دور دراز سے پانی لا کر اپنے چمن کی پیاس بجھاتا رہتا وہ سمجھتا تھا کہ اس کی ذمہ داری ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کرنے میں کسی انعام کا سوال پیدا نہیں ہوتا نام دیو کی شخصیت کا ایک اور پہلو خدمت خلق تھا وہ جڑی بوٹیوں سے بیماریوں کا علاج کرنے میں ماہر تھا اور اپنے باغ سے  دوا فراہم کر کے غریبوں کی مدد کرتا وہ یہ کام بلا معاوضہ انجام دیتا اور اکثر دوسرے دیہاتوں میں بھی علاج کے لیے بلایا جاتا اس کے دل میں غریبوں کے لیے خاص ہمدردی تھی اور وہ اپنی محدود آمدنی کے باوجود ضرورت مندوں کی مدد کرتا جب نظام نے ایک شاہی باغ لگانے کا حکم دیا تو ڈاکٹر سید سراج الحسن نے نام دیو کو مقبرہ رابعہ دورانی کے باغ سے شاہی باغ میں منتقل کیا شاہی باغ میں نام دیو نے جذبے اور لگن سے کام کیا دوسرے مالی لڑائی جھگڑے اور شراب نوشی میں مبتلا تھے لیکن نام دیو ان سے مختلف تھا وہ نہ کسی سے لڑتا نہ کوئی بری عادت رکھتا اور نہ ہی کبھی اپنی محنت پر غرور کرتا تھا ایک دن شہد کی مکھیوں کے حملے میں نام دیو کی موت ہو گئی وہ اپنے کام میں اس قدر مشغول تھا کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ خطرہ اس کے قریب آگیا ہے مکھیوں کے ڈنک میں اسے بے حال کر دیا اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا لیکن اس کی موت نے اسے ایک عام مالی سے ایک مثالی انسان اور ایک عظیم کردار بنا دیا مولوی عبدالحق نے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نام دیو جیسا شخص اپنی ذات یا مذہب کی وجہ سے بڑا نہیں تھا بلکہ اپنے کردار خلوص اور خدمت کی وجہ سے بڑا تھا نیکی اور بڑائی ذات یا نسل کی مرہون منت  نہیں بلکہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو کتنا بہتر استعمال کرتا ہے اور دوسروں کو کتنا فائئدہ پہنچاتا ہے نام دیو مالی کی زندگی اس بات کی روشن مثال ہے کہ حقیقی نیکی وہی ہے جو دکھاوے اور ستائش سے پاک اور انسان کا ہر عمل صرف خدا کی رضا کے لیے ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *