سبق کا عنوان: لڑی میں پروئے ہوئے منظر
مصنف کا نام: رضا علی عابدی

مصنف کا تعارف:
رضا علی عابدی ایک معروف صحافی مصنف اور براڈ کاسٹر ہیں جنہوں نے اپنی پیشاورانہ زندگی صحافت اور براڈکاسٹنگ کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا ان کی تحریریں خاص طور پر سفر کی روداد ہیں لوگوں کو اپنے وطن کی تاریخ اور ثقافت سے متعارف کراتی ہیں۔
ابتدائی زندگی:
رضا علی عابدی 30 نومبر 1935 کو بھارت کے علاقے اتراکھنڈ میں پیدا ہوئے 1950 میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی میں آباد ہو گئے ان کی صحافتی زندگی کا آغاز اغاز روزنامہ حریت کے ساتھ ہوا جہاں انہوں نے اپنے کیریئر کا باقاعدہ آغاز کیا رضا علی عابدی نے مختلف مقامات کا سفر کیا اور اپنی ان رودادوں کو لکھا جن میں سے جرنیلی سڑک ایک مشہور کتاب ہے اس کتاب میں انہوں نے برصغیر کی معروف تاریخی شہرہ جی ٹی روڈ اور دریائے سندھ کے کنارے کے سفر کی روداد بیان کی ہے انگلستان کے عالمی نشریاتی ادارے سے وابستہ ہو کر لندن چلے گئے اور 2008 تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔
تحریری تصانیف:
رضا علی عابدی کی تحریر عموماً سادہ رواں اور سلیس انداز میں ہوتی ہیں جو قاری کو اپنی طرف متوجہ رکھتی ہیں ان کی دیگر اہم تصانیف میں شامل ہیں۔
1۔ اردو کا حال
2۔ تیس سال بعد
3۔ جانے پہچانے
4۔ چوری چوری چپکے چپکے
5۔ شیر دریا
6۔ قاضی کا اچار
7۔ کمال کے آدمی چمپا
8۔ میری امی
9۔ چھے ہزار سنگ میل
10۔ کتابیں اپنے آبا کی
11۔ ہمارے کتب خانے
بچی تعلیم:وں ک
رضا علی عابدی نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس حوالے سے دلچسپ مضامین اور کہانیاں تحریر کیں۔
اعزازات:
نومبر 2013 کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی ان کی خدمات کی وجہ سے انہیں بہت سی شناخت ملی اور ان کی تحریریں آج بھی لوگوں کے دلوں میں جگہ رکھتی ہیں۔
زبانوں کی مہارت:
رضا علی عابدی کو اردو، سندھی، عربی ،فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل ہے جو ان کی تحریروں اور پروگراموں میں نظر آتا ہے۔
سبق کا عنوان: لڑی میں پروئے ہوئے منظر
خلاصہ:
پشاور میں مصنف نے شاہرائے پاکستان کے پتھر کا ذکر کیا ہے جو وزیر کی یادگار کے طور پر نصب کیا گیا تھا اس سے سڑکوں اور تاریخ کے گہرے ربط کو بیان کیا گیا ہے نوشہرہ کے قریب دریائے کابل کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی جو اکبر کے دور میں قلعوں سرائیوں اور بستیوں کی موجودگی کا نشان تھا ہنڈ گاؤں کا تذکرہ کیا گیا جہاں کندھارا کا پایا تخت تھا اور مختلف عظیم فاتحین نے حملے کیے تھے یہ علاقے اب ایک چھوٹا سا مقام بن چکے ہے لیکن اس کا ماضی ہندوستان کے دروازے کے طور پر اہم تھا اٹک کے قلعے کی فوجی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے جہاں مغلوں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگیں ہوئی تھیں آج بھی قلع دریا پار جانے والے راستے پر ایک اہم مقام ہے حسن ابدال کی تاریخی اہمیت بیان کی گئی ہے جہاں بابا ولی کندھاری کی چلہ گاہ اور سکھوں کا گردوراہ پنجہ صاحب واقع ہیں شہر میں مغلوں کے دور کی خوبصورتی اور موجودہ شور شرابے کا تذکرہ کیا گیا ہے سرائے کال کالا کی رنگین کونڈیاں اور ٹیکسلا کے کھنڈرات کا ذکر کیا گیا ہے جو کبھی علم و حکمت کا مرکز تھے اور اب بھی ہندوستان کے تاج کا حصہ سمجھے جاتے ہیں مارگلہ کے پہاڑوں کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا گیا جو چین افغانستان وسطی ایشیا اور ایران سے آنے والے قافلوں کے لیے ایک اہم راستہ تھے سفر کے دوران کی یادوں کو موجودہ وقت سے جوڑتے ہوئے ایک گلی کے منظر کا تذکرہ کیا گیا جہاں بچے کھیلتے تھے اور ان کے لیے دعا کی گئی کہ ہم آہنگی اور محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم رہے۔