سبق کا عنوان: بھیڑیا
مصنف کا نام: فاروق سرور

مصنف کا تعارف:
پیدائش:
فاروق سرور 1962 میں بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر میں حاصل کی اور پھر اعلی تعلیم کے لیے کوئٹہ ہی کے تعلیمی اداروں کا انتخاب کیا انہوں نے ایم اے انگریزی اور ایل بی کی ڈگریاں حاصل کی۔
صحافتی کیرئیر:
فاروق سرور نے اپنے ادبی اور صحافتی سفر کا آغاز مختلف اخبارات میں کالم نگاری سے کیا انہوں نے روزنامہ جنگ سمیت کئی دیگر اخباروں میں کالم لکھے جس سے وہ معاشرتی ثقافتی اور ادبی موضوعات پر لکھتے رہے۔
ادبی کام :
فاروق سرور نے کئی افسانے اور ناول تحریر کیے ہیں ان کی تحریریں مختلف موضوعات کو چھوتی ہیں اور ان کے افسانوں میں علامتی عناصر واضح طور پر نظر آتے ہیں وہ پشتو زبان میں بھی لکھتے ہیں اور ان کی کئی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ان کی اہم کتابوں میں شامل ہیں
1۔ ندی کی پیاس (پشتو افسانوں کا مجموعہ)
2۔ دریا
3۔ لیوا
4۔ سکارواتی
5۔ ادب سر
6۔ساگوان
7۔ بھیڑیا
8۔ مجرم
حکومتی خدمات:
فاروق سرور 2012 سے بلوچستان کی حکومت میں اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اس کردار میں انہوں نے قانونی معاملات اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا ہے۔
ٹیلی ویژن کی دنیا:
انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پی ٹی وی میں بھی اداکار اور مصنف کے طور پر کام کیا جہاں انہوں نے مختلف پروجیکٹس میں حصہ لیا۔
ایوارڈز اور اعزازات:
فاروق سرور کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی ایوارڈ مل چکے ہیں حکومت بلوچستان کی جانب سے تین بار بہترین کتاب کا اعزاز خوشحال خٹک خان ایوارڈ (اکادمی ادبیات اسلام اباد کی جانب سے)
2018 میں صدارت صدارتی ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس
ادبی تشہیر:
ان کی کتابیں اور افسانے نہ صرف اردو بلکہ پشتو زبان میں بھی مقبول ہیں ان کا کام ادبی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکا ہے اور وہ ایک اہم ادبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں فاروق سرور کی زندگی ایک مثالی ادبی اور سماجی خدمات کی مثال ہے جہاں انہوں نے اپنی تحریروں اور قانونی کام کے ذریعے عوامی مسائل کو اجاگر کیا ان کی تخلیقات اور خدمات نے انہیں ایک نمایاں مقام پر پہنچایا ہے۔
سبق کا عنوان: بھیڑیا
خلاصہ:
کہانی کا آغاز اس شخص سے ہوتا ہے جس نے ایک درخت پر پناہ لے رکھی ہے اور نیچے موجود بھیڑیے سے خوفزدہ ہے درخت کے نیچے خوف کا سامنا کرنے والے انسان کے لیے تمام آسائشیں موجود ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی تڑپ آزادی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے اسے اپنے خوف کی حالت سے باہر نکلنا ہوگا اس شخص کا خوف اس کے اندر ایک ذہنی اذیت پیدا کرتا ہے اور وہ کبھی بھی اپنے خوف پر قابو نہیں پا پاتا اس کی زندگی ایک مسلسل خوف میں ڈوبی ہوتی ہے ایک دن وہ شخص درخت پر اکیلا نہیں ہوتا بلکہ ایک اور انسان آکر اس کے ساتھ پناہ لیتا ہے دونوں کا خوف ایک دوسرے کے بھیڑیے سے مختلف ہوتا ہے لیکن دونوں اس خوف میں مشترک ہیں دونوں افراد فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ نیچے اتر کر اپنے اپنے بھیڑیے سے لڑیں گے تاکہ اس عذاب سے نجات حاصل کر سکیں ایک شخص اپنے خوف کو شکست دے کر نیچے اترتا ہے اور اپنی بھیڑیے کو ہلاک کر دیتا ہے لیکن دوسرا شخص اپنے خوف کی وجہ سے درخت سے نہیں اترتا کامیاب شخص آزادی حاصل کر کے خوشی سے رقص کرتا ہے لیکن جب وہ اپنے ساتھی کو شکر گزار کرنے کے لیے دیکھتا ہے تو وہ غائب ہوتا ہے آخری منظر میں وہ شخص دوبارہ درخت پر اکیلا محسوس کرتا ہے اور اس کے پاس نئے لوگ اور نئے بھیڑیے ہوتے ہیں وہ اب ان لوگوں کی طرف ہنستے ہوئے بڑھتا ہے جو اپنے خوف سے آزاد نہیں ہو پاتے افسانہ میں جرآت، خوف اور آزادی کے تصورات کے عکاسی کی گئی ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ خوف کا مقابلہ کرنے کے بعد آزادی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن آزادی ایک مستقل جدوجہد کی ضرورت ہے
(ندی کی پیاس)